میری وحشت کا جو افسانہ بنایا ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میری وحشت کا جو افسانہ بنایا ہوتا
by جلیل مانکپوری

میری وحشت کا جو افسانہ بنایا ہوتا
سننے والوں کو بھی دیوانہ بنایا ہوتا

ان کے لانے کی نہ سوجھی تجھے قاصد تدبیر
جھوٹ سچ کوئی تو افسانہ بنایا ہوتا

دیکھتے تم کہ سنور جاتے نہ گیسو کیسے
میری پلکوں کا اگر شانہ بنایا ہوتا

مر کے بھی روح نہ پینے کو ترستی ساقی
میری مٹی سے جو پیمانہ بنایا ہوتا

تم نے زلفوں کو بنا کر ہمیں دیوانہ کیا
کیا بگڑتا تھا تمہارا نہ بنایا ہوتا

دل جو واعظ کا بنایا تھا الٰہی پتھر
کاش سنگ در مے خانہ بنایا ہوتا

دل وحشی جو چھٹا مجھ سے بہت خوب ہوا
ورنہ اب تک مجھے دیوانہ بنایا ہوتا

وسعت دل جو کوئی پیر مغاں دکھلایا
ایک اک جام کو مے خانہ بنایا ہوتا

منہ سے آنچل جو ہٹاتا وہ سر بزم جلیلؔ
بہ خدا شمع کو پروانہ بنایا ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse