میری طرف سے کچھ تو ترے دل میں چور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میری طرف سے کچھ تو ترے دل میں چور ہے
by سعادت یار خان رنگین

میری طرف سے کچھ تو ترے دل میں چور ہے
میں نے سمجھ لیا تو دوگانا گھنور ہے

اتنا بڑا ہے منہ اک آتوں کی ناک پر
جتنی بڑی ددا مری انگلی کی پور ہے

روئے ذرا جو دادا تو دائی ہو بے قرار
دائی ہے مورنی تو مرا دادا مور ہے

منہ ڈھانپ کر نہ رو یہ چھلوری نہیں موئی
اے کوکا تیری انگلی کی پکی یہ پور ہے

ایسی گلے میں جالی کی کرتی ہے دائی کے
جیسی بری پڑی مری میانی کی طور ہے

ہے میرا چلنا پھرنا دوگانا کے اختیار
یہ جان لو کہ میں ہوں چکئی وہ ڈور ہے

صدقے زناخی میرے میں قربان اس کی ہوں
ہم میں چکئی ایک ہے اور ایک ڈور ہے

شاید کہ ہو گیا ترا میٹھا برس شروع
کوکا کچھ ان دنوں تری چاہت کا شور ہے

تیری قسم گنواری اسے جانتی ہوں میں
لونڈی کو رنگیںؔ جو کوئی کہتی بندور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse