میری صورت کو دیکھو کچھ نہ پوچھو ماجرا میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میری صورت کو دیکھو کچھ نہ پوچھو ماجرا میرا
by صفدر مرزا پوری

میری صورت کو دیکھو کچھ نہ پوچھو ماجرا میرا
کہ جو گزری ہے مجھ پر خوب واقف ہے خدا میرا

نشان پا سے چلتا ہے پتا تلووں کے چھالوں کا
جما ہے دشت میں بھی دور تک نقش وفا میرا

قفس میں ایک بیمار محبت جان دیتا ہے
چمن والوں سے یہ پیغام کہہ دینا صبا میرا

میری ناکامیٔ امید بھی ہے رحم کے قابل
میں وہ مایوس ہوں اٹھتا نہیں دست دعا میرا

مجھی پر آج پڑتی ہیں نگاہیں اہل محفل کی
تمہاری بزم میں ایسا جما رنگ وفا میرا

دل بیتاب سینے میں تڑپ کر ان سے کہتا ہے
تمہاری حسرتیں روکے ہوئے ہیں راستہ میرا

بلا سے پھر نہ آنہ آج کہہ دو کل ہم آئیں گے
اسی میں خیریت ہے تم نہ توڑو آسرا میرا

دم آخر جو آئے ہیں تو مرنے بھی نہیں دیتے
مجھے وہ یاد دلواتے ہیں پیمان وفا میرا

اسے کہنا خدا سے کچھ نہ کچھ کہنا حسینوں سے
مزے کی چیز ہے صفدرؔ دل بے مدعا میرا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse