میری شمع انجمن میں گل ہے گل میں خاک ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میری شمع انجمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
by منیرؔ شکوہ آبادی

میری شمع انجمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
داغ سینہ کے چمن میں گل ہے گل میں خاک ہے

داغ دل کو خاکساروں کے لگایا تو نے منہ
غنچۂ تنگ دہن میں گل ہے گل میں خاک ہے

بعد ہر دن داغ ہے تیری کدورت کا مجھے
صحن داماں کفن میں گل ہے گل میں خاک ہے

یا مکدر ہو کے ڈوبا ہے مرا دل اے پری
یا تیری چاہ ذقن میں گل ہے گل میں خاک ہے

گرد غربت سے بھری ہے میرے مسکن کی بہار
دامن صبح وطن میں گل ہے گل میں خاک ہے

داغداروں نے کدورت سے بنا ان کا پلنگ
سنبل موج رسن میں گل ہے گل میں خاک ہے

وحشیٔ گیسو نے داغا ہاتھ اڑائے گرد غم
شاخ آہوئے ختن میں گل ہے گل میں خاک ہے

داغ چھلے کا سراپے میں کدورت زا ہوا
گل رخوں نخل بدن میں گل ہے گل میں خاک ہے

بن گیا ہے شیشۂ ساعت مگر فانوس شمع
عکس شعلہ کا لگن میں گل ہے گل میں خاک ہے

ساگروں کی پھول پینے سے ہوئی مٹی خراب
جام مے باغ سخن میں گل ہے گل میں خاک ہے

گرد ظلمت ڈالی لالے پر خزاں نے اے فلک
چاند کے بدلے گہن میں گل ہے گل میں خاک ہے

بالوں میں چھپ کر کرن پھول ان کا مٹی ہو گیا
افعئ گیسو کے پھن میں گل ہے گل میں خاک ہے

داغ دے کر ملتے ہیں یہ شمع رو مٹی کا عطر
رخت اہل انجمن میں گل ہے گل میں خاک ہے

عنصر خاکی ہوا برباد اہل داغ کا
ان دنوں وحشت کے بن میں گل ہے گل میں خاک ہے

زخم سر پر ڈالتا ہوں ان بتوں کی گرد راہ
اب کلاہ برہمن میں گل ہے گل میں خاک ہے

پھول پی پی کر مکدر ہو رہا ہے وہ صبیح
دیکھ لو نخل سمن میں گل ہے گل میں خاک ہے

ہے مکدر نور مہر اس رشک گل کے ہجر میں
گلشن چرخ کہن میں گل ہے گل میں خاک ہے

میرے دل میں داغ ہے ہر داغ میں ہے گرد غم
عندلیبو اس چمن میں گل ہے گل میں خاک ہے

پردہ میں ہے پھول سا منہ اور منہ پہ گرد خط
اس سحر کے پیرہن میں گل ہے گل میں خاک ہے

ماتھے پر ہے داغ سجدہ داغ میں گرد سجود
خط قسمت کی شکن میں گل ہے گل میں خاک ہے

گرد کلفت لائے ہے فصل بہاری اپنے ساتھ
شاخ ہر نخل چمن میں گل ہے گل میں خاک ہے

کیا کہوں اس مصرعہ فرمائشی میں اے منیرؔ
ہے ہرن گل میں ہرن میں گل ہے گل میں خاک ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse