میری رفعت پر جو حیراں ہے تو حیرانی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میری رفعت پر جو حیراں ہے تو حیرانی نہیں
by سیماب اکبرآبادی

میری رفعت پر جو حیراں ہے تو حیرانی نہیں
تو ابھی انسان کی عظمت کا عرفانی نہیں

اور یہ کیا ہے ضبط جو سوز پنہانی نہیں
آگ روشن دل میں ہے چہرے پہ تابانی نہیں

پھول کے پتے بکھر کر اک فسانہ کہہ گئے
جس کی ہو ترتیب ممکن وہ پریشانی نہیں

مجھ پر اک الزام ہے قید قفس وہ بھی غلط
جس کی نیت میں ہو آزادی وہ زندانی نہیں

جوش گریہ اس پر آہوں کی یہ سیلابی ہوا
کون سی ہے موج اشک ایسی جو طوفانی نہیں

راز یہ مجھ پر شکست غنچہ و گل سے کھلا
حسن بھی تو بے نیاز چاک دامانی نہیں

خواہشوں کے ساتھ اپنے نفس کو بھی کر فنا
زندگی میں اس سے بہتر کوئی قربانی نہیں

اتفاقات محبت نے یہ ثابت کر دیا
وہ بھی پیشانی میں ہے شاید جو پیش آنی نہیں

دولت کونین سے بھی ہے گراں تر اک سکوں
دل ہو مستغنی تو پروائے جہاں بانی نہیں

جاودانی ہوں میں اے دنیا پرستش کر مری
یہ مسلم ہے کہ تو فانی ہے میں فانی نہیں

حوصلوں کے ساتھ طے کر راہ دشوار حیات
حل تو ہوں گی مشکلیں لیکن بہ آسانی نہیں

دیکھ اے ساقی قناعت کی طرب افشانیاں
آب کوثر ہے کٹورے میں مرے پانی نہیں

ہے مری نظروں میں انجام بہار گلستاں
اب مرے سر میں ہوائے گل بدامانی نہیں

بہہ چکا ہے خون پانی کی طرح انسان کا
معتدل پھر بھی مزاج عالم فانی نہیں

کر نہ اے کنج لحد زحمت مرے آرام کی
میں مجاہد ہوں مجھے خوئے تن آسانی نہیں

کر رہا ہوں نظم اے سیمابؔ قرآن مجید
اور یہ کیا ہے اگر تائید یزدانی نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse