میری تقدیر موافق نہ تھی تدبیر کے ساتھ
Appearance
میری تقدیر موافق نہ تھی تدبیر کے ساتھ
کھل گئی آنکھ نگہباں کی بھی زنجیر کے ساتھ
کھل گیا مصحف رخسار بتان مغرب
ہو گئے شیخ بھی حاضر نئی تفسیر کے ساتھ
ناتوانی مری دیکھی تو مصور نے کہا
ڈر ہے تم بھی کہیں کھنچ آؤ نہ تصویر کے ساتھ
ہو گیا طائر دل صید نگاہ بے قصد
سعی بازو کی یہاں شرط نہ تھی تیر کے ساتھ
لحظہ لحظہ ہے ترقی پہ ترا حسن و جمال
جس کو شک ہو تجھے دیکھے تری تصویر کے ساتھ
بعد سید کے میں کالج کا کروں کیا درشن
اب محبت نہ رہی اس بت بے پیر کے ساتھ
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |