میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
by شاہ نصیر

میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
تیری آنکھوں کا ہوں کشتہ رکھ دے دو نرگس کے پھول

ایک دن ہو جاؤں گا تیرے گلے کا ہار میں
سونگھنے کو مت لیا کر ہاتھ میں جس تس کے پھول

بستر گل پر جو تو نے کروٹیں لیں رات کو
عطر آگیں ہو گئے اے گل بدن سب پس کے پھول

وصل مہوش کا دلا مژدہ ہمیں دے ہے چراغ
جھڑتے ہیں ہر دم شب ہجراں میں منہ سے اس کے پھول

کچھ خبر بھی ہے تجھے چل فاتحہ کے واسطے
آج ہیں اے شوخ تیرے عاشق مفلس کے پھول

اور ہی کچھ رنگ ہے سینے کے داغوں کا مرے
اس روش کے ہیں کہاں تیرے سپر پر مس کے پھول

تو ہے وہ جو مہر و مہ شام و سحر تجھ پر سے وار
سیم و زر کے پھینکتے ہیں بیچ میں مجلس کے پھول

کیا نوا سنجی کریں اے ہم صفیران چمن
آ گئی فصل خزاں گلشن سے سارے کھسکے پھول

ہیں مہ و خورشید جو شام و سحر تجھ پر سے وار
سیم و زر کے پھینکتے ہیں بیچ میں مجلس کے پھول

کس نے سکھلائی ہے تجھ کو یہ روش رفتار کی
مٹ گئے قالیں کے جو تیرے قدم سے گھس کے پھول

پھلجھڑی سے کم نہیں مژگان اشک افشاں تری
موتیا کے دیکھنا جھڑتے ہیں منہ سے اس کے پھول

رنگ خوب و زشت میں کیوں فرق سمجھے ہے نصیرؔ
خار بھی تو ہے اسی کا ہیں بنائے جس کے پھول

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse