میاں دل تجھے لے چلے حسن والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میاں دل تجھے لے چلے حسن والے
by نظیر اکبر آبادی

میاں دل تجھے لے چلے حسن والے
کہو اور کیا جا خدا کے حوالے

ادھر آ ذرا تجھ سے مل کر میں رو لوں
تو مجھ سے ذرا مل کے آنسو بہا لے

چلا اب تو ساتھ ان کے تو بے بسی سے
لگا میرے پہلو میں فرقت کے بھالے

خبردار ان کے سوا زلف و رخ کے
کہیں مت نکلنا اندھیرے اجالے

ترے اور بھی ہیں طلب گار کتنے
مبادا کوئی تجھ کو واں سے اڑا لے

کہیں قہر ایسا نہ کیجو کہ مجھ کو
بلانے پڑیں فال تعویذ والے

کسی کا تو کچھ بھی نہ جاوے گا لیکن
پڑیں گے مجھے اپنے جینے کے لالے

تری کچھ سفارش میں ان سے بھی کر دوں
کرے گا تو کیا یاد مجھ کو بھلا لے

سنو دلبرو گل رخو مہ جبینو
میں تم پاس آیا ہوں اک التجا لے

خدا کی رضا یا محبت سے اپنی
پڑا اب تو آ کر تمہارے یہ پالے

تم اپنے ہی قدموں تلے اس کو رکھیو
تسلی دلاسے میں ہر دم سنبھالے

کوئی اس کو تکلیف ایسی نہ دیجو
کہ جس میں یہ رو کر کرے آہ نالے

تمہارے یہ سب ناز اٹھاوے گا لیکن
وہی بوجھ رکھیو جسے یہ اٹھا لے

اگر دسترس ہو تو کیجے منادی
کہ پھر کوئی سینے میں دل کو نہ پالے

نظیرؔ آہ دل کی جدائی بری ہے
بہیں کیوں نہ آنکھوں سے آنسو کے نالے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse