میان سے تیرا اگر خنجر نکل کر رہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
میان سے تیرا اگر خنجر نکل کر رہ گیا
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

میان سے تیرا اگر خنجر نکل کر رہ گیا
میرے بھی دل میں بڑا ارماں ستم گر رہ گیا

کیا فقط کوچہ میں تیرے میرا بستر رہ گیا
بلکہ مجھ سے چھوٹ کر دل ہی کہیں پر رہ گیا

میکشوں کے دور میں بیٹھے تھے ہم بھی با نصیب
اب تو خالی ہاتھ میں ساقی کے ساغر رہ گیا

میرے کس ارماں نے میرے قتل سے روکا تجھے
جو کمر سے تیرے یوں خنجر نکل کر رہ گیا

در تک اس کے میں پہنچ جاؤں گا یہ کہتا ہوا
تیرے کوچے میں مرا بھولے سے بستر رہ گیا

موت آئی ہے مجھے لینے کو یہ کہہ دے کوئی
رہنے والا مر گیا اجڑا ہوا گھر رہ گیا

وائے ناکامی کہ اڑنے بھی نہ پایا تھا ابھی
باندھتے ہی نامہ بازوئے کبوتر رہ گیا

دل کی مایوسی نہ پوچھو جب وہ پہلو سے اٹھے
کر ہی کیا سکتا تھا تڑپا اور تڑپ کر رہ گیا

سب کو لوح قبر میرا بھی یوں ہی دے گی نشاں
آئنے سے جس طرح نام سکندر رہ گیا

عشق اس کے گیسوؤں کا کیا ہوا عالمؔ مجھے
سارے عالم کا جو سودا تھا مرے سر رہ گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse