مہرباں پاتے نہیں تیرے تئیں یک آن ہم
مہرباں پاتے نہیں تیرے تئیں یک آن ہم
پھر بھلا دل کے نکالیں کس طرح ارمان ہم
ہر قدم پر جس کے اعجاز مسیحائی فدا
اس ادا اس ناز اس رفتار کے قربان ہم
عمر بھر ساقی نہ چھوڑی مے کدہ کی بندگی
ایک ہی پیمانے پر کرتے ہیں یہ پیمان ہم
کوئی تو دعوت بتا دو اس طرح کی شیخ جی
ایک شب تو اپنے گھر اس کو رکھیں مہمان ہم
ہاں مگر صلوات پڑھنا دیکھ تجھ کو دم بدم
اور کیا رکھتے ہیں تیری شان کے شایان ہم
جی میں ہم برپا کریں زنجیر کا غل اے جنوں
وادی مجنوں کو دیکھیں کس طرح سنسان ہم
رات دن صحبت ہے جن کو بے تکلف آپ سے
پوچھنا کیا وہ تو بہتر ہیں بھلا اے جان ہم
تو نے دزدیدہ نگاہیں جب لڑائیں غیر سے
ہو گئے ناچار پیارے جان کر انجان ہم
ہم نشیں سرکار کے ہی جا بجا غماز ہیں
کیجئے تحقیق اسے کرتے نہیں بہتان ہم
سیر کو آتا ہے وہ ایمانؔ جا کر باغ میں
کھول دیویں چار دن آگے ہی گل کے کان ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |