مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر
by اکبر الہ آبادی

مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر
کس طرح ان سے ہمارا حال دیکھا جائے گا

دفتر دنیا الٹ جائے گا باطل یک قلم
ذرہ ذرہ سب کا اصلی حال دیکھا جائے گا

آفیشل اعمال نامہ کی نہ ہوگی کچھ سند
حشر میں تو نامۂ اعمال دیکھا جائے گا

بچ رہے طاعون سے تو اہل غفلت بول اٹھے
اب تو مہلت ہے پھر اگلے سال دیکھا جائے گا

تہ کرو صاحب نسب نامی وہ وقت آیا ہے اب
بے اثر ہوگی شرافت مال دیکھا جائے گا

رکھ قدم ثابت نہ چھوڑ اکبرؔ صراط مستقیم
خیر چل جانے دے ان کی چال دیکھا جائے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse