مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے
by اسماعیل میرٹھی

مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے
کچھ تسلی کچھ اضطراب بھی ہے

ہے تو اغیار سے خطاب مگر
میری ہر بات کا جواب بھی ہے

واں برابر ہے خلوت و جلوت
اس کی بے پردگی حجاب بھی ہے

ہو قناعت تو ہے جہاں دریا
حرص غالب ہو تو سراب بھی ہے

وہ تخبتر کہاں تپاک کہاں
گرم و روشن تو آفتاب بھی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse