مگر وہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مگر وہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے
by مرزا محمد رفیع سودا

مگر وہ دید کو آیا تھا باغ میں گل کے
کہ بو کچھ اور میں پائی دماغ میں گل کے

عدو بھی ہو سبب زندگی جو حق چاہے
نسیم صبح ہے روغن چراغ میں گل کے

چمن کھلیں ہیں پہنچ بادہ لے کے اے ساقی
گرفتہ دل مجھے مت کر فراغ میں گل کے

نہیں ہے جائے ترنم یہ بوستاں کہ نہیں
سوائے خون جگر مے ایاغ میں گل کے

علی کا نقش قدم ڈھونڈھتا ہے یوں سوداؔ
پھرے ہے باد سحر جوں سراغ میں گل کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse