مکتب کی عاشقی بھی تاریخ زندگی تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مکتب کی عاشقی بھی تاریخ زندگی تھی
by مضطر خیرآبادی

مکتب کی عاشقی بھی تاریخ زندگی تھی
فاضل تھا گھر سے مجنوں لیلیٰ پڑھی لکھی تھی

فرہاد جان دے گا شیریں تباہ ہوگی
یہ تو خدا کے گھر سے گویا کہی بدی تھی

قدرت کے دائرے میں اس وقت بت بنے تھے
جب نعمت تکلم تقسیم ہو چکی تھی

کعبے میں ہم نے جا کے کچھ اور حال دیکھا
جب بت کدہ میں پہنچے صورت ہی دوسری تھی

ماتم میں میرے مضطرؔ وہ کس ادا سے آیا
آنکھوں میں کچھ نمی تھی ہونٹوں پہ کچھ ہنسی تھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse