مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
by میر محمدی بیدار

مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
ہر طفل کے یاں اشک سے آلودہ ورق ہے

ہوں منتظر اس مہر کے آنے ہی کا ورنہ
شبنم کی طرح آنکھوں میں دم کوئی رمق ہے

دیکھ اے چمن حسن تجھے باغ میں خنداں
شبنم نہیں یہ گل پہ خجالت سے عرق ہے

وہ چاند سا منہ سرخ دوپٹہ میں ہے رخشاں
یا مہر کہوں جلوہ نما زیر شفق ہے

نرگس کی زر و گل پہ بھی وا چشم طمع ہے
اس پر کہ زر و سیم کا اس پاس طبق ہے

دل اس بت بے مہر کو دے مفت ہی کھویا
کہتے ہیں جو کچھ یار مجھے واقعی حق ہے

جز تیرے نہیں غیر کو رہ دل کے نگر میں
جب سے کہ ترے عشق کا یاں نظم و نسق ہے

مذکور ہوا یاں مگر اس گل کے دہن کا
جو رشک سے ہر غنچہ کا دل باغ میں شق ہے

کر مصقلۂ ذکر سے دل صاف تو اپنا
بیدارؔ یہ آئینہ تجلی گہۂ حق ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse