مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا
by ریاض خیرآبادی

مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا
نشان لاکھ ہیں لیکن نشاں نہیں ملتا

کہیں بھی جائیں کہاں آسماں نہیں ملتا
لحد ہی ایک جگہ ہے جہاں نہیں ملتا

ہوئی ہے روشن اسی سے ہماری پیشانی
جبین عرش کو جو آستاں نہیں ملتا

سنی ہے میں نے بھی رنگیں نوائی ناقوس
گلے سے میرے یہ وقت اذاں نہیں ملتا

یہ چاہتا ہوں کہ بے منہ کے آبلوں سے نبھے
کہیں بھی خار کوئی بے زباں نہیں ملتا

بہار آتے ہی پھولوں نے چھاؤنی چھائی
کہ ڈھونڈھتا ہوں مجھے آشیاں نہیں ملتا

یہ کہہ رہا ہے ترنم ہوا کی موجوں کا
خموش پھولوں کا حسن بیاں نہیں ملتا

یہ شب گزار حرم ہے ضرور اے ساقی
کسی سے رات کو پیر مغاں نہیں ملتا

چلے نہ کام بھرے خم اگر نہ ساتھ چلیں
حرم کی راہ میں کوسوں کنواں نہیں ملتا

شفق کھلی نہ سر قبر پائے رنگیں سے
زمیں سے جھک کے کبھی آسماں نہیں ملتا

خدا کے واسطے پہنچا دے کوئی منزل تک
بچھڑ گیا ہوں مجھے کارواں نہیں ملتا

زبان حال میں ان کی عجب لطافت ہے
کسی سے پھولوں کا حسن بیاں نہیں ملتا

چلے نہ ہاتھ گلے پر تو خود ہی چل جائے
انہیں گلا ہے کہ خنجر رواں نہیں ملتا

ریاضؔ چھانٹ لیا اس نے مجھ سے بوڑھے کو
کوئی بھی دختر رز کو جواں نہیں ملتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse