مژگاں ہیں غضب ابروے خم دار کے آگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مژگاں ہیں غضب ابروے خم دار کے آگے
by حفیظ جونپوری

مژگاں ہیں غضب ابروے خم دار کے آگے
یہ تیر برس پڑتے ہیں تلوار کے آگے

خیر اس میں ہے واعظ کہ کبھی مے کی مذمت
کرنا نہ کسی رند خوش اطوار کے آگے

کہنا مری بالیں پہ کہ آثار برے ہیں
کرتا ہے یہ باتیں کوئی بیمار کے آگے

شکوے تھے بہت ان سے شکایت تھی بہت کچھ
سب بھول گئے وصل کی شب پیار کے آگے

خلوت میں جو پوچھو تو کہوں دل کی حقیقت
مجھ سے نہ مرا حال سنو چار کے آگے

آئینہ ابھی دیکھ کے خودبیں تو وہ ہو لیں
خود آئیں گے پھر طالب دیدار کے آگے

قاروں کا خزانہ ہو کہ حاتم کی سخاوت
سب کچھ ہے مگر کچھ نہیں مے خوار کے آگے

کیا مجھ کو ڈرائیں گی تری تیز نگاہیں
یہ آنکھ جھپکتی نہیں تلوار کے آگے

دیوانوں میں دیوانے حفیظؔ آپ ہیں ورنہ
ہشیار سے ہشیار ہیں ہشیار کے آگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse