مژگاں وہ جھپکتا ہے اب تیر ہے اور میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مژگاں وہ جھپکتا ہے اب تیر ہے اور میں ہوں
by نظیر اکبر آبادی

مژگاں وہ جھپکتا ہے اب تیر ہے اور میں ہوں
سر پاؤں سے چھدنے کی تصویر ہے اور میں ہوں

کہتا ہے وہ کل تیرے پرزے میں اڑاؤں گا
اب صبح کو قاتل کی شمشیر ہے اور میں ہوں

بے جرم و خطا جس کا خوں ہووے روا یارو
اس خوبیٔ قسمت کا نخچیر ہے اور میں ہوں

ہے قتل کی دھن اس کو اور میری نظر حق پر
تدبیر ہے اور وہ ہے تقدیر ہے اور میں ہوں

دل ٹوٹا نظیرؔ اب تو دو چار برس رو کر
اس قصر شکستہ کی تعمیر ہے اور میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse