مژگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مژگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں
by خواجہ میر درد

مژگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں

کھینچے ہے دور آپ کو میری فروتنی
افتادہ ہوں پہ سایۂ قد کشیدہ ہوں

ہر شام مثل شام ہوں میں تیرہ روزگار
ہر صبح مثل صبح گریباں دریدہ ہوں

کرتی ہے بوئے گل تو مرے ساتھ اختلاط
پر آہ میں تو موج نسیم دزیدہ ہوں

تو چاہتی ہے تو تپش دل کہ بعد مرگ
کنج مزار میں بھی نہ میں آرمیدہ ہوں

اے دردؔ جا چکا ہے مرا کام ضبط سے
میں غم زدہ تو قطرۂ اشک چکیدہ ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse