مژدہ اے رہروان راہ سخن
مژدہ اے رہروان راہ سخن
پایہ سنجان دست گاہ سخن
طے کرو راہ شوق زودا زود
آن پہنچی ہے منزل مقصود
پاس ہے اب سواد اعظم نثر
دیکھیے چل کے نظم عالم نثر
سب کو اس کا سواد ارزانی
چشم بینش ہو جس سے نورانی
یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا
جلوۂ مدعا نظر آیا
ہاں یہی شاہراہ دہلی ہے
مطبع بادشاہ دہلی ہے
منطبع ہو رہی ہے پنج آہنگ
گل و ریحان و لالہ رنگا رنگ
ہے یہ وہ گلشن ہمیشہ بہار
بار ور جس کا سرو گل بے خار
نہیں اس کا جواب عالم میں
نہیں ایسی کتاب عالم میں
اس سے انداز شوکت تحریر
اخذ کرتا ہے آسماں کا دبیر
مرحبا طرز نغز گفتاری
حبذا رسم و راہ نثاری
نثر مدحت سراے ابراہیم
ہے مقرر جو اب پئے تعلیم
اس کے فقروں میں کون آتا ہے
کیا کہیں کیا وہ راگ گاتا ہے
تین نثروں سے کام کیا نکلے
ان کے پڑھنے سے نام کیا نکلے
ورزش قصہ کہن کب تک
داستان شہ دکن کب تک
تا کجا درس نثر ہاے کہن
تازہ کرتا ہے دل کو تازہ سخن
تھے ظہوری و عرفی و طالب
اپنے اپنے زمانے میں غالب
نہ ظہوری ہے اور نہ طالب ہے
اسد اللہ خاں غالب ہے
قول حافظ کا ہے بجا اے دوست
ہر کر اپنج روز نوبت اوست
کل وہ سرگرم خودنمائی تھے
شمع بزم سخن سرائی تھے
آج یہ قدر دان معنی ہے
بادشاہ جہان معنی ہے
نثر اس کی ہے کارنامۂ راز
نظم اس کی نگار نامۂ راز
دیکھو اس دفتر معانی کو
سیکھو آئین نکتہ دانی کو
اس سے جو کوئی بہرہ ور ہو گا
سینہ گنجینۂ گہر ہو گا
ہو سخن کی جسے طلب گاری
کرے اس نسخے کی خریداری
آج جو دیدہ ور کرے درخواست
تین بھیجے رپے وہ بے کم و کاست
منطبع جب کہ ہو چکے گی کتاب
زر قیمت کا ہو گا اور حساب
چار سے پھر نہ ہو گی کم قیمت
اس سے لیویں گے کم نہ ہم قیمت
جس کو منظور ہو کہ زر بھیجے
احسن اللہ خاں کے گھر بھیجے
وہ بہار ریاض مہر و وفا
جس کو کہتے ہیں عمدۃ الحکما
میں جو ہوں در پے حصول شرف
نام عاصی کا ہے غلام نجف
ہے یہ القصہ حاصل تحریر
کہ نہ ارسال زر میں ہو تاخیر
چشمۂ انطباع جاری ہے
ابتداے ورق شماری ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |