مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
Appearance
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
دام خالی قفس مرغ گرفتار کے پاس
جگر تشنۂ آزار تسلی نہ ہوا
جوئے خوں ہم نے بہائی بن ہر خار کے پاس
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے
خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس
میں بھی رک رک کے نہ مرتا جو زباں کے بدلے
دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غم خوار کے پاس
دہن شیر میں جا بیٹھے لیکن اے دل
نہ کھڑے ہو جیے خوبان دل آزار کے پاس
دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے
خود بہ خود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس
مر گیا پھوڑ کے سر غالبؔ وحشی ہے ہے
بیٹھنا اس کا وہ آ کر تری دیوار کے پاس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |