مچلتی ہے مرے سینے میں تیری آرزو کیا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مچلتی ہے مرے سینے میں تیری آرزو کیا کیا
by فروغ حیدرآبادی

مچلتی ہے مرے سینے میں تیری آرزو کیا کیا
لیے پھرتی ہے تیری چاہ مجھ کو کو بہ کو کیا کیا

رہی ہے بعد مردن بھی تمہاری جستجو کیا کیا
غبار خاک مرقد اڑ رہا ہے چار سو کیا کیا

کبھی عاشق کو سمجھایا کبھی غیروں کو بہلایا
فریب آمیز ہیں چالیں تری او حیلہ جو کیا کیا

رہائی دی مجھے قید علائق سے عنایت کی
کسی کی تیغ کا ممنون ہے میرا گلو کیا کیا

بہاریں لوٹتا ہوں آپ کے تشریف لانے میں
پھلا پھولا ہے میرا آج نخل آرزو کیا کیا

تمہیں بھی یاد ہیں کچھ قول و اقرار و قسم اپنے
ہوئی تھی درمیاں میرے تمہارے گفتگو کیا کیا

خیال ہجر سے حالت تغیر ہوتی جاتی ہے
اڑا جاتا ہے میرے دل سے رنگ آرزو کیا کیا

تمہارے واسطے سن لیتے ہیں ہر ایک کی باتیں
ہمیں کہہ جاتے ہیں باتوں ہی باتوں میں عدو کیا کیا

عدو کی منتیں کی ہیں قدم چومے ہیں درباں کے
فروغؔ بے سر و ساماں ہوا بے آبرو کیا کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse