مٹی کا دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مٹی کا دیا
by الطاف حسین حالی

جھٹپٹے کے وقت گھر سے ایک مٹی کا دیا
ایک بڑھیا نے سر رہ لا کے روشن کر دیا
تاکہ رہگیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں
راہ سے آساں گزر جائے ہر ایک چھوٹا بڑا
یہ دیا بہتر ہے ان جھاڑوں سے اور اس لیمپ سے
روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا
گر نکل کر اک ذرا محلوں سے باہر دیکھیے
ہے اندھیرا گھپ در و دیوار پر چھایا ہوا
سرخ رو آفاق میں وہ رہنما مینار ہیں
روشنی سے جن کی ملاحوں کے بیڑے پار ہیں

ہم نے ان عالی بناؤں سے کیا اکثر سوال
آشکارا جن سے ان کے بانیوں کا ہے جلال
شان و شوکت کی تمہاری دھوم ہے آفاق میں
دور سے آ آ کے تم کو دیکھتے ہیں با کمال
قوم کو اس شان و شوکت سے تمہاری کیا ملا
دو جواب اس کا اگر رکھتی ہو یارائے مقال
سرنگوں ہو کر وہ سب بولیں زبان حال سے
ہو سکا ہم سے نہ کچھ الانفعال الانفعال
بانیوں نے تھا بنایا اس لیے گویا ہمیں
ہم کو جب دیکھیں خلف اسلاف کو رویا کریں

شوق سے اس نے بنایا مقبرہ اک شاندار
اور چھوڑا اس نے اک ایوان عالی یادگار
ایک نے دنیا کے پودے باغ میں اپنے لگائے
ایک نے چھوڑے دفینے سیم و زر کے بے شمار
اک محب قوم نے اپنے مبارک ہاتھ سے
قوم کی تعلیم کی بنیاد ڈالی استوار
ہوگی عالم میں کہو سرسبز یہ پچھلی مراد
یا وہ اگلوں کی امیدیں لائیں گی کچھ برگ و بار
چشمۂ سر جیوں ہے جو بہتا رہے گا یاں وہی
سب اتر جائیں گی چڑھ چڑھ ندیاں برسات کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse