موم بتی کے آنسو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موم بتی کے آنسو  (1940) 
by سعادت حسن منٹو

غلیظ طاق پر جو شکستہ دیوار میں بنا تھا، موم بتی ساری رات روتی رہی تھی۔موم پگھل پگھل کر کمرے کے گیلے فرش پر اوس کے ٹھٹھرے ہوئے دھندلے قطروں کے مانند بکھر رہا تھا۔ ننھی لاجو موتیوں کا ہار لینے پر ضد کرنے اور رونے لگی تو اس کی ماں نے موم بتی کے ان جمے ہوئے آنسوؤں کو ایک کچے دھاگے میں پرو کر اس کا ہار بنا دیا۔ ننھی لاجو اس ہار کو پہن کر خوش ہوگئی، اور تالیاں بجاتی ہوئی باہر چلی گئی۔

رات آئی۔۔۔ میل بھرے طاقچے میں نئی موم بتی روشن ہوئی اور اس کی کانی کانی آنکھ اس کمرے کی تاریکی دیکھ کر ایک لمحے کے لیے حیرت کے باعث چمک اٹھی۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد جب وہ اس ماحول کی عادی ہو گئی تو اس نے خاموشی سے ٹکٹکی باندھ کر اپنے گردوپیش کو دیکھنا شروع کردیا۔

ننھی لاجو ایک چھوٹی سی کھٹیا پر پڑی سو رہی تھی،اور خواب میں اپنی سہیلی بندوسے لڑ رہی تھی کہ وہ اپنی گڑیا کا بیاہ اس کے گڈے سے کبھی نہیں کرے گی۔ اس لیے کہ وہ بدصورت ہے۔

لاجو کی ماں کھڑکی کے ساتھ لگی، خاموش اور نیم روشن سڑک پر پھیلی ہوئی کیچڑ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی، سامنے بھٹیارے کی بند دکان کے باہر چبوترے پر انگیٹھی میں سے کوئلوں کی چنگاریاں ضدی بچوں کی طرح مچل مچل کر نیچے گر رہی تھیں۔

گھنٹہ گھر نے غنودگی میں بارہ بجائے، بارہ کی آخری پکار دسمبر کی سرد رات میں تھوڑی دیر تک کانپتی رہی اور پھر خاموشی کا لحاف اوڑھ کر سو گئی۔۔۔ لاجو کی ماں کے کانوں میں نیند کا بڑا سہانا پیغام گنگنایا مگر اس کی انتڑیاں اس کے دماغ تک کوئی اور بات پہنچا چکی تھیں۔

دفعتاً سرد ہوا کے جھونکے سے گھنگھرؤں کی مدھم جھنجھناہٹ اس کے کانوں تک پہنچی۔ اس نے یہ آواز اچھی طرح سننے کے لیے کانوں میں اپنی سماعت کی طاقت بھرنی شروع کردی۔

گھنگھرو رات کی خاموشی میں مرتے ہوتے آدمی کے حلق میں اٹکے ہوئے سانس کی طرح بجنا شروع ہوگئے، لاجو کی ماں اطمینان سے بیٹھ گئی۔ گھوڑے کی تھکی ہوئی ہنہناہٹ نے رات کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کردیا اور ایک تانگہ لالٹین کے کھمبے کی بغل میں آکھڑا ہوا۔ تانگہ والا نیچے اترا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دے کر اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ جس کی چِق اٹھی ہوئی تھی اور تخت پر ایک دھندلا سایہ بھی پھیلا تھا۔

اپنے کھردرے کمبل کو جسم کے گرد اچھی طرح لپیٹ کر تانگے والے نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ساڑھے تین روپے کا کریانہ تھا۔ اس میں سے اس نے ایک روپیہ چار آنے اپنے پاس رکھ لیے۔ اور باقی پیسے تانگے کی اگلی نشست کا گدا اٹھا کر اس کے نیچے چھپا دیے ۔یہ کام کرنے کے بعد وہ کوٹھے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔

لاجو کی ماں چندو سنیاری اٹھی اور دروازہ کھول دیا۔ مادھو تانگے والا اندر داخل ہوا اور دروازے کی زنجیر چڑھا کر اس نے چندو سنیاری کو اپنے ساتھ لپٹا لیا، ’’بھگوان جانتا ہے، مجھے تجھ سے کتنا پریم ہے۔۔۔ اگر جوانی میں ملاقات ہوتی تو یاروں کا تانگہ گھوڑا ضرور بکتا!‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک روپیہ اس کی ہتھیلی میں دبا دیا۔

چندو سنیاری نے پوچھا، ’’بس؟‘‘

’’یہ لے۔۔۔اور‘‘ مادھو نے چاندی کی چونی اس کی دوسری ہتھیلی پر جما دی، ’’تیری جان کی قسم! بس یہی کچھ تھا میرے پاس!‘‘

رات کی سردی میں گھوڑا بازار میں کھڑا ہنہناتا رہا۔ لالٹین کا کھمبا ویسے ہی اونگھتا رہا۔

سامنے ٹوٹے ہوئے پلنگ پر مادھو بیہوش لیٹا تھا۔ اس کی بغل میں چندو سنیاری آنکھیں کھولے پڑی تھی اور پگھلتے ہوئے موم کے ان قطروں کو دیکھ رہی تھی جو گیلے فرش پرگر کر چھوٹے چھوٹے دانوں کی صورت میں جم رہے تھے۔ وہ ایکا ایکی دیوانہ وار اٹھی اور لاجو کی کھٹیا کے پاس بیٹھ گئی۔ ننھی لاجو کے سینے پر موم کے دانے دھڑک رہے تھے۔ چندو سنیاری کی دھندلی آنکھوں کو ایسا معلوم ہوا کہ موم بتی کے ان جمے ہوئے قطروں میں اس کی ننھی لاجو کی جوانی کے آنسو چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اس کا کانپتا ہوا ہاتھ بڑھا اور لاجو کے گلے سے وہ ہار جدا ہوگیا۔

پگھلے ہوئے موم پر سے موم بتی کا جلتا ہوا دھاگا پھسل کر نیچے فرش پرگرا اور اس کی آغوش میں سو گیا۔۔۔ کمرے میں خاموشی کے علاوہ اندھیرا بھی چھا گیا۔

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse