موسم گل میں ہیں دیوانوں کے بازار کئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موسم گل میں ہیں دیوانوں کے بازار کئی
by ولی عزلت

موسم گل میں ہیں دیوانوں کے بازار کئی
شور بلبل کئی زنجیر کی جھنکار کئی

سب گئی بوئے مروت کی کل اس باغ سے حیف
بارے دامن کش دل رہ گئے ہیں خار کئی

کب لگ احباب کا غم مجھ کو دکھاوے گا فلک
خاک ہو گئے بہت اور ہیں سو چلن ہار کئی

اے سیہ چشمو نہیں کچھ مجھے گل زار سے کام
داغ لالہ ہی سے رکھتا ہوں سروکار کئی

سخت یاروں کی کدورت سے ہوا ہوں بے دل
کھا گئے آئینۂ دل مرا زنگار کئی

موسم گل میں مرے چاک گریباں کو دیکھ
پھاڑ گئے پیرہن صبر رفو کار کئی

دن پڑے شعلہ رخوں بن مجھے جوں دود چراغ
میری دل سوزی سے جلتے ہیں شب تار کئی

جلدی اول کی ہے پر آبلہ پاؤں میں مرے
اور وہ گل رو کی رہے راہ میں اب خار کئی

سرد مہری تری خوں گرم ہے از بس مجھ سات
ہیں رگ لعل جگر نالۂ خوں بار کئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse