موسم برسات کی صبح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موسم برسات کی صبح
by افسر میرٹھی

آج جس وقت مجھے تم نے جگایا اماں
اپنے اور نیند کے پہلو سے اٹھایا اماں
آسماں کملی تھا اوڑھے ہوئے کالی کالی
تازگی اور سفیدی سے فضا تھی خالی
نہ اندھیرا ہی تھا شب کا نہ اجالا دن کا
رات کے گرد نظر آتا تھا ہالا دن کا
ایک بلندی کی کڑک پستی کو دھندلاتی تھی
دل ہلاتی ہوئی آواز سنی جاتی تھی
صبح ہر چار طرف روتی ہوئی پھرتی تھی
اپنا منہ آنسوؤں سے دھوتی ہوئی پھرتی تھی
جیسے ننہا سا میں بیٹا ہوں تمہارا اماں
ایسے ہی صبح کا اک لال ہے پیارا اماں
جیسے میں کھیلنے جاتا ہوں بہت دور کہیں
ایسے ہی شرق میں ہے آج وہ مستور کہیں

کھو گیا ہے نظر آتا نہیں بچہ اس کا
ڈھونڈھتی لاکھ ہے پاتا نہیں بچہ اس کا
دیکھو تو صبح کا دل سرد ہے بے نور ہے آنکھ
اپنے بچہ کے تصور ہی سے معمور ہے آنکھ
مجھ کو جانے دو کہ میں ڈھونڈ کے لاؤں اس کو
غم زدہ صبح کے پہلو میں بٹھاؤں اس کو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse