موجوں کا عکس ہے خط جام شراب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موجوں کا عکس ہے خط جام شراب میں
by اصغر گونڈوی

موجوں کا عکس ہے خط جام شراب میں
یا خون اچھل رہا ہے رگ ماہتاب میں

وہ موت کہ کہتے ہیں جس کو سکون سب
وہ عین زندگی ہے جو ہے اضطراب میں

دوزخ بھی ایک جلوۂ فردوس حسن ہے
جو اس سے بے خبر ہے وہی ہے عذاب میں

اس دن بھی میری روح تھی محو نشاط دید
موسیٰ الجھ گئے تھے سوال و جواب میں

میں اضطراب شوق کہوں یا جمال دوست
اک برق ہے جو کوندھ رہی ہے نقاب میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse