موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
by جلیل مانکپوری

موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
اے مست ناز تم تو مرے ہوش ہو گئے

سوتے میں وہ جو مجھ سے ہم آغوش ہو گئے
جتنے گلے تھے خواب فراموش ہو گئے

وعدے کی رات آئی قضا اس ادا کے ساتھ
دھوکے میں تیرے اس سے ہم آغوش ہو گئے

برسوں ہوئے نہ تم نے کیا بھول کر بھی یاد
وعدے کی طرح ہم بھی فراموش ہو گئے

آنکھوں میں بھی جو آئے تو اللہ رے حجاب
بن کر نظر نظر سے وہ روپوش ہو گئے

کیا کیا زباں دراز چراغ انجمن میں تھے
دامن کشاں تم آئے تو خاموش ہو گئے

یاران رفتہ بات کا دیتے نہیں جواب
کیا کہہ دیا فضا نے کہ خاموش ہو گئے

آئی شب وصال تو نیند آ گئی انہیں
ہم ہوش میں جو آئے وہ مدہوش ہو گئے

مر کر تمام سر سے ٹلیں آفتیں جلیلؔ
ہم جان دے کے سب سے سبک دوش ہو گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse