موجد شاعری شاہ شمس ولی اللہ
یہ مضمون بھی رسالہ انجمن شمارہ اگست ۱۸۶۷ء سے نقل کیا گیا ہے۔ اسے مولوی صاحب نے اپنے قلم سے دوبارہ درست کیا ہے۔ جن الفاظ کا بعدمیں اضافہ ہوا ہے انہیں خطوط وجدانی میں لکھ دیا ہے۔ ذرا آب حیات کھول کر ولی کا حال نکالئے اور اس تقریر کااس کے ساتھ مقابلہ کیجئے۔ معلوم ہو جائےگا کہ مشق اور تقاضائے وقت سے مولوی صاحب نے کیا کیا تبدیلیاں کیں تھیں۔ اس مضمون کا آخری فقرہ پہلے یہ تھا۔ ’’بعضے اشعاراس کے جو زبان مروجہ حال کے مطابق ہیں لکھے جاتے ہیں، جس سے تصدیق میرے کلام کی ہوتی ہے کہ باوجود یکہ زبان اس وقت کی کس قدر خراب تھی مگر اس نے اپنے محاورہ کو کتنا صاف کیا تھا۔ دیوان اس کا پارس (پیرس) دارالخلافہ فرانس میں اور ولایت لندن میں بھی چھپا ہے۔‘‘ نظرثانی میں یہ فقرہ فقط اتنا رہ گیا۔ ’’بعض غزلیں لکھی جاتی ہیں۔ زبان اس وقت کی کیا تھی اور اس نے اپنے محاورہ کو کتنا صاف کیا تھا۔‘‘زمان سابق میں شاعری اردو کی کبت اور دوہرے وغیرہ میں ختم ہو جاتی تھی۔ جلسہ گزشتہ میں ذکر ہوا ہے کہ امیرخسرو نے اول زبان ہندی کو بحورمختصہ فارسی میں داخل کیا ورنہ مسلمان ہندوستانی بھی اپنی موزونی طبع کو دوہرہ وغیرہ میں صرف کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ملک محمد جائسی کے دوہرے اور کبت ہندی میں بہت مشہور ہیں اور کچھ کچھ زبان اردومیں بھی اشعار لکھے ہیں۔ ڈاکٹر گلکرسٹ صاحب اپنی تصنیفات میں ان کا ذکر بہت لاتے ہیں۔ ایک پدماوت بھی اس نے لکھی ہے۔ پدماوت راجہ لنکا کی بیٹی تھی۔ اس کی شادی رتن سنگھ چتوڑ کے راجہ سے ہوئی تھی۔ جب سلطان علاء الدین ۱۳۰۳ء میں اس شہر میں فتح یاب ہوا تو وہ زنِ مردانہ خیال تیرہ ہزار عورتوں کے ساتھ آگ میں جل کر خاک سیاہ ہو گئی کہ دشمن کے ہاتھ پڑنے سے مرنا (بہتر ہے۔)(ایک) جلد اس کتاب کی باتصویر دہلی کے کتب خانہ میں موجود تھی۔ پارس دارالخلافت (فرانس) میں بھی پہنچی ہے اور اب چند سال گزرے کہ زبان اردو میں بھی منظوم ہوئی ہے۔ مگر یاد رہے کہ جس (چتوڑ) کو اکبر بادشاہ نے ۱۵۰۹ء میں فتح کیا وہ اور چتوڑ ہے۔ ملک محمد مذکور نے اکثر چیزیں راگ میں بھی تصنیف کی ہیں۔ اس کے علاوہ نواز نام شاعر بھی مسلمان تھا۔ جس نے برج بھاشا میں سکنتلا کا ترجمہ فرخ سیر بادشاہ کے حکم سے کیا تھا۔ سیوا ایک مصنف ہے جس نے زبان دکھنی میں روضۃ الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں لکھی ہے اور مرثیہ اس کے وہاں کے امام باڑوں میں اب تک پڑھے جاتے ہیں۔ احمد گجراتی جسے علی ابن ابراہیم اپنے تذکرہ میں لکھتا ہے کہ یہ شخص برج بھاشا اور سنسکرت میں خوب واقف تھا اور بموجب رواج عہد کے ریختہ بھی کہتا تھا، تین شعر اس کے جلسہ گزشتہ میں پڑھے گئے۔با یزید انصاری جو فقرائے جلالی کا فرقہ کا بانی ہے، دبستان مذاہب میں لکھا ہے کہ ۱۵۲۴ء میں جالندھر میں گزارا ہے۔ اس کی تصنیفات عربی و فارسی و پشتو و بھاشا وغیرہ میں ہیں۔ خیر البیان ایک کتاب ایسی لکھی ہے کہ معتقد اسے کتاب آسمانی سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر لیڈن صاحب وغیرہ مصنفین انگلش اور فرانس نے بھی اس کے احوالات عجیب اپنی تصنیفات میں لکھے ہیں۔سعدی جو ولی سے پہلے گزارا ہے چند شعر اس کے جلسہ سابق میں پڑھے گئے۔ بعضے تذکروں میں سعدی پر شیخ سعدی شیرازی کا دھوکہ کھایا ہے اور اشعار اس کے بنام شیخ ممدوح لکھے ہیں۔ مگر یہ غلط ہے وہ ایسا برخود غلط تھا کہ کہتا تھا جو مرتبہ مجھے اپنی زبان میں حاصل ہے شیخ سعدی کو فارسی میں نہ تھا۔ اس کے عہد کو قریب چارسو برس کے گزرے ہیں۔ چنانچہ اشعار حامد باری کے اوراس کے بھی جلسہ گزشتہ میں پڑھے گئے۔ اگرچہ اس زمانہ میں شعراء اردو شعر بھی کہتے تھے مگر ولی 1 کے سوائے کوئی صاحب دیوان نہیں گزرا۔ اس شخص کا وطن گجرات دکھن تھا۔ شاہ وجیہہ الدین گجراتی کے خاندان مشہور سے تھا۔ ابوالمعالی کے ساتھ دہلی میں آیا۔ شاہ سعداللہ گلشن سے ملاقات کرکے مرید ہوا اور انہیں کی فرمائش سے اپنی نظم کی ترتیب وتدوین کی۔ کہتے ہیں اس کا شاگرد بھی ہے۔ تخمیناً تین سوبرس اس کے زمانہ کو گزرے۔ عالمگیر کا دور بھی اس نے پایا ہے۔ اس کے کلام سے اس وقت کی زبان کا بڑا پختہ سراغ ملتا ہے۔سون اور سین بجائے سے اور منے بجائے میں اور الفاظ جمع ہندی باقاعدہ فارسی مثل بھواں وپدکاں اور پی اور پیتم اور پریجن بمعنی معشوق اس کا روزمرہ ہے۔ چونکہ اصل دکنی تھا اس واسطے الفاظ دکنی ہی اس کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ دیوان اس کا تمام وکمال موجود ہے۔ اور پیرس دارالخلافہ فرانس اور خاص لندن میں چھپ گیا ہے۔ غزل رباعی قطعہ وغیرہ بعض قسم کے کلام اور مضامین اس کے دیوان میں جمع ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ قصیدہ کے دستور نے اس وقت تک رواج نہ پایا تھا یا۔ وہ خواجہ درد کی طرح کہ آزادانہ مزاج رکھتا تھا اور خوشامد کو پسند نہ کرتا تھا کیونکہ قصائد وغیرہ تعریف سلاطین اور امراء میں جیسا کہ بعض شعراء زمانہ کا دستور ہے، اس کے دیوان میں نہیں۔ ایک مثنوی شہر سورت کی تعریف میں بزبان سلیس لکھی ہے۔ مضامین بہت عالی نہیں لیتا۔آج کی زبان سے قطع نظر کرکے اور زمانہ کے حالات کا تصور کرکے جب دیکھا جاتا ہے تو اس کا کلام نہایت حیرت انگیز ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہ تمام ہندوستانی شاعروں کا ہادی اور رہنما تھا۔ افسوس ہے کہ ہماری زبان کے تذکروں میں اس سے زیادہ اس کا نشان نہیں دے سکتے تاکہ سن ولادت و وفات سیاحی یا گوشہ نشینی یا اور عادات واطوار اس کے لکھے جاتے۔ لاچار اسی پر قناعت کی گئی۔ بعض غزلیں لکھی جاتی ہیں۔ زبان اس وقت کی کیا تھی اوراس نے اپنے محاورے کو کتنا صاف کیا تھا۔تجھ حسن عالم تاب کا جو عاشق و شیدا ہواہر خوبرو کے حسن کے جلوہ سے بے پروا ہواوہ صنم جب سے بسادیدہ حیران میں آآتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آطاقت نہیں کسی کو کہ ایک حرف سن سکےاحوال گر کہوں میں دل بے قرار کاآئے ولی ہماری طرف تیغ ناز سےاس شوخ کو خیال اگر ہے شکارکامسند گل منزل شبنم ہوئیدیکھ رتبہ دیدہ بیدار کاجنون عشق ہوا اس قدر زمیں کو محیطکہ پارسا کو ہوئی موج بو ریا زنجیردورنگی سے تری اے سرو رعناکبھی راضی کبھی بیزار ہیں ہمخط کے آنے نے خبردار کیا گلرو کونشہ ہوش ہے اس بادہ ریحانی میںایک دل نہیں آرزو سے خالیہر جا ہے محال اگر خلا ہےمرا دل مجھ سے کرکے بیوفائیپسندِ خاطرِ خویاں ہوا ہےترک کر اے رقیب فرعونیآہ میری عصائے موسیٰ ہےاے ولی گلبدن کو باغ میں دیکھولیِ صد پارہ باغ باغ ہوااے ولی سر و قد کو دیکھوں گاوقت آیا ہے سرفرازی کاحاشیہ(۱) ۸ شعر کی غزل اور غزل کو ردیف سے انہوں نے آراستہ کیا۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |