موت ہی چارہ ساز فرقت ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موت ہی چارہ ساز فرقت ہے
by مرزا رحیم الدین حیا

موت ہی چارہ ساز فرقت ہے
رنج مرنے کا مجھ کو راحت ہے

ہو چکا وصل وقت رخصت ہے
اے اجل جلد آ کہ فرصت ہے

روز کی داد کون دیوے گا
ظلم کرنا تمہاری عادت ہے

کارواں عمر کا ہے رخت بدوش
ہر نفس بانگ کوس رحلت ہے

سانس اک پھانس سی کھٹکتی ہے
دم نکلتا نہیں مصیبت ہے

تم بھی اپنے حیاؔ کو دیکھ آؤ
آج اس کی کچھ اور حالت ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse