موت و حیات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موت و حیات
by عظیم الدین احمد

ایک دھوکا ہے سمجھتے ہو جسے موت و حیات
غور سے دیکھو نہ جیتا ہے نہ مرتا کوئی
آہ کچھ کھیل نہیں عالم امکاں کا وجود
ذرہ ذرہ میں چمکتا ہے خود آرا کوئی
پردۂ عالم تکویں میں چھپا کر خود کو
انجمن بند ہوا ہے چمن آرا کوئی
آپ ہر رنگ میں کرتا ہے تماشا اپنا
یاں نہ گلشن ہے نہ دریا ہے نہ صحرا کوئی
موت وہ کھیل ہے جس میں نہیں چھینا جھپٹی
نہ خوشی سے مگر اس کھیل کو کھیلا کوئی
زندگی کھیل کے پردے کا وہ رخ ہے جس سے
جھانک کر اپنا تماشا ہے دکھاتا کوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse