موتری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
موتری  (1953) 
by سعادت حسن منٹو

کانگرس ہاؤس اور جناح ہال سےتھوڑے ہی فاصلے پر ایک پیشاب گاہ ہے جسےبمبئی میں’’موتری‘‘ کہتے ہیں۔ آس پاس کےمحلوں کی ساری غلاظت اس تعفن بھری کوٹھری کے باہر ڈھیریوں کی صورت میں پڑی رہتی ہے۔ اس قدر بدبو ہوتی ہے کہ آدمیوں کو ناک پر رومال رکھ کر بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔

اس موتری میں اس دفعہ اسے مجبوراً جانا پڑا۔۔۔ پیشاب کرنے کے لیے ناک پررومال رکھ کر، سانس بند کرکے، وہ بدبوؤں کے اس مسکن میں داخل ہوا۔فرش پر غلاظت بلبلے بن کر پھٹ رہی تھی۔۔۔ دیواروں پر اعضائے تناسل کی مہیب تصویریں بنی تھیں۔۔۔ سامنے کوئلے کے ساتھ کسی نے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے،’’مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا۔‘‘ان الفاظ نے بدبو کی شدت اور بھی زیادہ کردی۔ وہ جلدی جلدی باہر نکل آیا۔

جناح ہال اور کانگرس ہاؤس دونوں پر گورنمنٹ کا قبضہ ہے۔ لیکن تھوڑے ہی فاصلے پر جو موتری ہے، اسی طرح آزاد ہے۔اپنی غلاظتیں اور عفونتیں پھیلانے کے لیے۔۔۔ آس پاس کے محلوں کا کوڑا کرکٹ اب کچھ زیادہ ہی ڈھیریوں کی صورت میں باہر پڑا دکھائی دیتا ہے۔

ایک بار پھر اسے مجبوراً اس موتری میں جانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ پیشاب کرنے کے لیے۔ ناک پر رومال رکھ کر اور سانس بند کرکے وہ بدبوؤں کے اس گھر میں داخل ہوا۔۔۔ فرش پر پتلے پاخانے کی پپڑیاں جم رہی تھیں۔ دیواروں پر انسان کے اولاد پیدا کرنے والے اعضا کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا۔

’’مسلمان کی بہن کا پاکستان مارا‘‘ کے نیچے کسی نے موٹی پنسل سے یہ گھناؤنے الفاظ تحریر کیے ہوئے تھے،’’ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا۔‘‘اس تحریر نے موتری کی بدبو میں ایک تیزابی کیفیت پیدا کردی۔۔۔ وہ جلدی جلدی باہر نکل آیا۔مہاتما گاندھی کی غیرمشروط رہائی ہوئی۔ جناح کو پنجاب میں شکست ہوئی۔ جناح ہال اور کانگرس ہاؤس دونوں کو شکست ہوئی نہ رہائی۔ ان پر گورنمنٹ کا اور اس کے تھوڑے ہی فاصلے پر جو موتری ہے اس پر بدبو کا قبضہ جاری رہا۔۔۔ آس پاس کے محلوں کا کوڑا کرکٹ اب ایک ڈھیر کی صورت میں باہر پڑا رہتا ہے۔

تیسری بار پھر اسے اس موتری میں جانا پڑا۔۔۔ پیشاب کرنے کے لیے نہیں۔۔۔ ناک پر رومال رکھ کر اور سانس بند کرکے وہ غلاظتوں کی اس کوٹھری میں داخل ہوا۔۔۔ فرش پر کیڑے چل رہے تھے۔ دیواروں پر انسان کے شرمناک حصوں کی نقاشی کرنے کے لیے اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی۔۔۔’’مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا‘‘ اور’’ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا‘‘ کے الفاظ مدھم پڑ گئے تھے۔ مگر ان کے نیچے سفید چاک سے لکھے ہوئے یہ الفاظ ابھر رہے تھے۔

’’دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا۔‘‘

ان الفاظ نے ایک لحظے کے لیے موتری کی بدبو غائب کردی۔۔۔ وہ جب آہستہ آہستہ باہر نکلا تو اسے یوں لگا کہ اسے بدبوؤں کے اس گھر میں ایک بے نام سی مہک آئی تھی۔ صرف ایک لحظے کے لیے۔

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse