منہ ڈھانپ کے میں جو رو رہا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منہ ڈھانپ کے میں جو رو رہا ہوں
by گویا فقیر محمد

منہ ڈھانپ کے میں جو رو رہا ہوں
اک پردہ نشیں کا مبتلا ہوں

کیا ہجر میں ناتواں ہوا ہوں
تنکا نہ اٹھے وہ کہربا ہوں

تیری سی نہ بو کسی میں پائی
سارے پھولوں کو سونگھتا ہوں

بلبل ہے چمن میں ایک ہم درد
میں بھی کسی گل کا مبتلا ہوں

آئینہ ہے جسم صاف اس کا
کیونکر نہ کہے میں خود نما ہوں

کہتا ہے یہ مشتری فلک پر
یوسف ترے ہاتھ میں بکا ہوں

رخسار وہ رکھ کے سو گیا تھا
گل تکیوں کو روز سونگھتا ہوں

خط لکھ کے جو ہے تلاش قاصد
مانند قلم میں پھر رہا ہوں

مر جان کہی دیکھ دیکھ وہ ہاتھ
مہندی کی طرح میں پس گیا ہوں

اتنی تو جفائیں کر نہ اے بت
آخر میں بندۂ خدا ہوں

اب تو مجھے غیب داں کہیں سب
میں تیری کمر کو دیکھتا ہوں

گویاؔ ہوں وقت کا سلیماں
پریوں پر حکم کر رہا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse