منہ سے پردہ نہ اٹھے صاحب من یاد رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منہ سے پردہ نہ اٹھے صاحب من یاد رہے
by نظیر اکبر آبادی

منہ سے پردہ نہ اٹھے صاحب من یاد رہے
پھر قیامت ہی عیاں ہے یہ سخن یاد رہے

چھوڑو اتنی نہ زباں غنچہ دہن یاد رہے
پھر ہمارے بھی دہن ہے یہ سخن یاد رہے

کوچہ گردوں میں نہیں ہم جو یہ کوچہ چھوڑیں
خاک کرنا ہے ہمیں یاں ہے بدن یاد رہے

عہد آنے کا کیا ہے تو گرہ بند میں دے
اس سے شاید تجھے اے عہد شکن یاد رہے

آپ کے کوچے کو ہم کعبۂ مقصود سمجھ
بھول بیٹھے ہیں سب آرام وطن یاد رہے

حرف اٹھ جانے کا کہہ بیٹھے ہو اب تو لیکن
پھر نہ کہیے گا کبھی قبلۂ من یاد رہے

سو چمن ایک فقط مکھڑے میں اس کے ہیں نظیرؔ
جب یہ صورت ہو تو پھر کس کو چمن یاد رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse