منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں
by ریاض خیرآبادی

منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں
کچھ نہیں یہ منہ دکھانا کچھ نہیں

تھا جو کیا کچھ بات کہتے کچھ نہ تھا
آدمی کا بھی ٹھکانا کچھ نہیں

گل ہیں معشوقوں کے دامن کے لئے
قبر عاشق پر چڑھانا کچھ نہیں

ہے ستانے کا بھی لطف اک وقت پر
ہر گھڑی ان کو ستانا کچھ نہیں

بے منائے من گئے ہم آپ سے
ایسے روٹھے کو منانا کچھ نہیں

ہاتھ سے گلچیں کے جھٹکے کون کھائے
شاخ گل پر آشیانا کچھ نہیں

یہ حسیں ہیں پیار کر لینے کی چیز
ان حسینوں کو ستانا کچھ نہیں

اے حباب اپنی ذرا ہستی تو دیکھ
اس پر اتنا سر اٹھانا کچھ نہیں

تو نے توبہ کی تو ہے لیکن ریاضؔ
بات کا تیری ٹھکانا کچھ نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse