منہ جو فرقت میں زرد رہتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منہ جو فرقت میں زرد رہتا ہے
by تعشق لکھنوی

منہ جو فرقت میں زرد رہتا ہے
کچھ کلیجہ میں درد رہتا ہے

تھی کبھی رشک مہر کے عاشق
دھوپ کا رنگ زرد رہتا ہے

کس کے سنتے ہو رات کو نالے
کہتے ہو سر میں درد رہتا ہے

کبھی پوچھا نہ میرے کوچہ میں
کون صحرا نورد رہتا ہے

شور ہے زرد آئی ہے آندھی
کیا مرا رنگ زرد رہتا ہے

یاد آتی ہیں گرمیاں تیری
دل ہمارا بھی سرد رہتا ہے

کہتے ہو تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
بندہ صحرا نورد رہتا ہے

جس طرف بیٹھتے تھے وصل میں آپ
اسی پہلو میں درد رہتا ہے

کہتے ہیں دل کی چوٹ کا ہے فساد
منہ تعشقؔ جو زرد رہتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse