منہ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منہ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے
by میر حسن دہلوی

منہ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے
ترے غم میں یہ سیر بحر و بر ہے

خبر لے دل کی اس سے جس کا گھر ہے
کسی کے گھر کی ہم کو کیا خبر ہے

وہ اب کیوں کر نہ کھینچے آپ کو دور
ہمارے چاہنے کا یہ اثر ہے

ہمیں کچھ وہ نہیں ہیں آہ ورنہ
وہی ہے شام اور وہ ہی سحر ہے

ہمیں دیکھو نہ دیکھو تم ہمیں تو
تمہارا دیکھنا مد نظر ہے

سنا لے مرتے مرتے گل کو بلبل
کوئی نالہ ترے دل میں اگر ہے

اٹھاتا ہے جو روز اٹھ درد و غم کو
کسے طاقت ہے میرا ہی جگر ہے

کبھی بستا تھا اک عالم یہاں بھی
یہ دل جو اب کہ اجڑا سا نگر ہے

کہا چاہے ہے کچھ کہتا ہے کچھ اور
حسنؔ دھیان ان دنوں تیرا کدھر ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse