منکر ہوتے ہیں ہنر والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منکر ہوتے ہیں ہنر والے
by قدر بلگرامی

منکر ہوتے ہیں ہنر والے
نخل جھک جاتے ہیں ثمر والے

ہم نے گھورا تو ہنس کے فرمایا
اچھے آئے بری نظر والے

منہدی مل کر وہ شوخ کہتا ہے
سینک لیں آنکھیں چشم تر والے

ہے سلامت جو سنگ در ان کا
سیکڑوں مجھ سے درد سر والے

قدرؔ کیا اپنے پاس دل کے سوا
اڑیں پر والے پھولیں زر والے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse