منظور ہے گزارش احوال واقعی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منظور ہے گزارش احوال واقعی
by مرزا غالب

منظور ہے گزارش احوال واقعی
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
جام جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے
میں کون اور ریختہ ہاں اس سے مدعا
جز انبساط خاطر حضرت نہیں مجھے
سہرا لکھا گیا زرہ امتثال امر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے
مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
روے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ
سودا نہیں جنوں نہیں وحشت نہیں مجھے
قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse