منظور ہے ناپنا کمر کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منظور ہے ناپنا کمر کا
by نسیم دہلوی

منظور ہے ناپنا کمر کا
پیمانہ بنائیے نظر کا

تھا شام سے دغدغہ سحر کا
دھڑکا ہی لگا رہا گجر کا

سینے میں سے کچھ آئی آواز
پھوٹا کوئی آبلہ جگر کا

آنسو پونچھیں گے کب تک احباب
ٹپکا نہ رکے گا چشم تر کا

دل ہی تو ہے کیا عجب بہل جائے
کچھ ذکر کرو ادھر ادھر کا

کیوں زلف دراز کھولتے ہو
کیا خوف تمہیں نہیں کمر کا

کچھ بے ادبی ہوئی مقرر
سینہ بیدھا گیا گھر کا

تنہا نہیں گوشۂ قفس بھی
جھگڑا ہے ساتھ بال و پر کا

محتاج کفن نہیں ہے بلبل
پردہ کافی ہے بال و پر کا

رہتے نہیں ایک دم کسی جا
بتلائیں نشان خاک گھر کا

کیا کیا ہم نے نہ خاک اڑائی
پایا نہ غبار تیرے در کا

ہو آپ کے کان تک رسائی
اللہ یہ مرتبہ گھر کا

اے دل کنج مزار دیکھا
پہلا یہ مقام ہے سفر کا

یاقوت کہاں مرے دھن میں
ٹکڑا ہوگا کوئی جگر کا

رخصت رخصت جو کہہ رہے ہو
اے جان خیال ہے کدھر کا

جب تک ہے کچھ حیات باقی
رستہ دیکھیں گے نامہ بر کا

آنکھوں میں خیال اور ہی ہے
جلوہ کیا دیکھیے قمر کا

آرام کہاں نصیب ہم کو
کھٹکا درپیش ہے سفر کا

پہنچے مرے ہاتھ تک تو فصاد
منہ لال کروں گا نیشتر کا

دوڑے لینے قدم اجل کے
دھوکا ہوا یار کی خبر کا

ٹھہرو لاشہ اٹھے تو جانا
جھگڑا ہے اور دو پہر کا

کیوں آئے نسیمؔ نیند ہم کو
سر رکھ کے زمیں پہ یار سرکا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.