منزل دراز و دور ہے اور ہم میں دم نہیں
منزل دراز و دور ہے اور ہم میں دم نہیں
ہوں ریل پر سوار تو دام و درم نہیں
میدان زندگی میں کریں دوڑ دھوپ کیا
ہم ایسے ناتواں ہیں کہ اٹھتا قدم نہیں
کیا خوب ہاتھ پاؤں خدا نے عطا کئے
چلتے رہیں تو حاجت خیل و خدم نہیں
اغیار کیوں دخیل ہیں بزم سرور میں
مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں
جب تک ہے عشق و عاشق و معشوق میں تمیز
کھلتا کسی پہ راز حدوث و قدم نہیں
آدم پہ معترض ہوں فرشتے تو کیا عجب
چکھی ہنوز چاشنئ زہر غم نہیں
اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
تو ہی نہیں ہے رمز محبت سے آشنا
ورنہ دیار حسن میں رسم ستم نہیں
ارشاد طبع کی نہ اگر پیروی کرے
نقاشئ خیال مجال قلم نہیں
سر ہی کے بل گئے ہیں سدا رہروان عشق
حیرت زدہ نہ بن کہ نشان قدم نہیں
کیسی طلب کہاں کی طلب کس لئے طلب
ہم ہیں تو وہ نہیں ہے جو وہ ہے تو ہم نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |