منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
by داغ دہلوی

منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
کس جگہ آنکھ لڑی ہائے کہاں دل آیا

ہم نہ کہتے تھے نہ کر عشق پشیماں ہوگا
جو کیا تو نے وہ آگے ترے اے دل آیا

قہقہے قلقل مینا نے لگائے کیا کیا
مجھ کو مستی میں جو رونا سر محفل آیا

قتل کی سن کے خبر عید منائی میں نے
آج جس سے مجھے ملنا تھا گلے مل آیا

تا دم مرگ نہ ہو وہ مرے دشمن کو نصیب
جو مزا مجھ کو الٰہی دم بسمل آیا

مرقد قیس پر اب تک بھی تو خار صحرا
انگلیوں سے یہ بتاتے ہیں وہ محمل آیا

گنج قاروں کے سوا بھی ہے عدم میں سب کچھ
ہائے دنیا میں نہ اس ملک کا حاصل آیا

جس نے کچھ ہوش سنبھالا وہ جواں قتل ہوا
عہد پیری نہ ترے عہد میں قاتل آیا

دین و دنیا سے گیا تو یہ سمجھ لے اے داغؔ
غضب آیا اگر اس بت پہ ترا دل آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse