منتظر اس کے دلا تا بہ کجا بیٹھنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منتظر اس کے دلا تا بہ کجا بیٹھنا
by نظیر اکبر آبادی

منتظر اس کے دلا تا بہ کجا بیٹھنا
شام ہوئی اب چلو صبح پھر آ بیٹھنا

ہوش رہا نے قرار دین رہا اور نہ دل رہا
پاس بتوں کے ہمیں خوب نہ تھا بیٹھنا

لطف سے اے دل تجھے اس کے جو ابرو بٹھائے
بیٹھیو لیکن بہت پاس نہ جا بیٹھنا

دل کی ہماری غرض باندھے ہے کیا بند بند
شوخ کا وہ کھول کر بند قبا بیٹھنا

کوچے میں اس شوخ کے جاتے تو ہو اے نظیر
جل میں کہیں اپنی چاہ تم نہ جتا بیٹھنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse