ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بو نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بو نہ ہو
by داغ دہلوی

ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بو نہ ہو
کافر اگر ہزار برس دل میں تو نہ ہو

کیا لطف انتظار جو تو حیلہ جو نہ ہو
کس کام کا وصال اگر آرزو نہ ہو

محشر میں اور ان سے مری دو بہ دو نہ ہو
کہنے کی بات ہے جو کوئی گفتگو نہ ہو

قاتل اگر نہ شوخ ہو خنجر اگر نہ تیز
رگ رگ میں بے قرار ہمارا لہو نہ ہو

خلوت میں تجھ کو چین نہیں کس کا خوف ہے
اندیشہ کچھ نہ ہو جو نظر چار سو نہ ہو

سرخی ہے تیغ پر نہ حنا تیرے ہاتھ میں
قاتل کہیں سفید عدو کا لہو نہ ہو

وہ آدمی کہاں ہے وہ انسان ہے کہاں
جو دوست کا ہو دوست عدو کا عدو نہ ہو

دل کو مسل مسل کے ذرا ہاتھ سونگھئے
ممکن نہیں کہ خون تمنا کی بو نہ ہو

زاہد مزا تو جب ہے عذاب و ثواب کا
دوزخ میں بادہ کش نہ ہوں جنت میں تو نہ ہو

معشوق ہجر اس سے زیادہ کوئی نہیں
کیا دل لگی رہے جو تری آرزو نہ ہو

ایسے کہاں نصیب کہ وہ بت ہو ہم کلام
ہم طور پر بھی جائیں تو کچھ گفتگو نہ ہو

دست دعا کو ملتی ہے تاثیر عرش سے
جو ہاتھ سے ہو پاؤں سے وہ جستجو نہ ہو

غش آ نہ جائے دیکھ کے قاتل کو موج خوں
نازک مزاج کا کہیں ہلکا لہو نہ ہو

ہے لاگ کا مزا دل بے مدعا کے ساتھ
تم کیا کرو کسی کو اگر آرزو نہ ہو

یہ ٹوٹ کر کبھی نہ بنے گا کسی طرح
زاہد شکست توبہ شکست سبو نہ ہو

اے داغؔ آ کے پھر گئے وہ اس کو کیا کریں
پوری جو نامراد تری آرزو نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse