ممکن نہیں دوا ہے اس آزار کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ممکن نہیں دوا ہے اس آزار کے لیے
by جمیلہ خدا بخش

ممکن نہیں دوا ہے اس آزار کے لیے
بہتر ہے موت عاشق بیمار کے لیے

مر کر ہوا ہوں خاک در یار کے لیے
سایہ بنا ہوں میں تری دیوار کے لیے

دام بلائے ہستیٔ موہوم میں پھنسا
بہتر یہی سزا تھی گناہ گار کے لیے

کیوں کر رقیب آئیں نہ محفل میں آپ کی
ہے خار گل کے واسطے گل خار کے لیے

پا بوسیوں کے شوق میں اپنا یہ لوح دل
اک خال بن گیا قدم یار کے لیے

جلوہ دکھا دے خواب میں بہر خدا مجھے
آنکھیں ترس گئیں ترے دیدار کے لیے

بچوں کی طرح ہم نے اس آغوش ناز میں
پالا تھا دل کو تجھ سے دل آزار کے لیے

اب شیخ و برہمن مرے دامن کے تار کو
آتے ہیں لینے سبحہ و زنار کے لیے

مونس جو ایک دل تھا وہ گھل کر فراق سے
آنسو بنا ہے چشم گہر بار کے لیے

اس رخ کو دیکھتے ہی دل زار نے کہا
زیبا ہے غازہ ایسا ہی رخسار کے لیے

کیا حال دل سناؤں جمیلہؔ کہ ضعف سے
قوت زباں میں چاہیے اظہار کے لیے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.