ممنوں ہی رہا اس بت کافر کی جفا کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ممنوں ہی رہا اس بت کافر کی جفا کا
by راسخ عظیم آبادی

ممنوں ہی رہا اس بت کافر کی جفا کا
شکوہ نہ کیا دل نے کبھو شکر خدا کا

اعضا کے تناسب کا نہ وارفتہ ہو اتنا
آنکھیں ہیں تو رہ حیرتی انداز و ادا کا

ہر دم ہے ہدف ناوک بیداد کا تیری
پتھر کا کلیجا ہے مگر اہل وفا کا

تابوت ہی دیکھا نہ مرا آنکھ اٹھا کر
کیا شرم ہے کشتہ ہوں میں اس شرم و حیا کا

پاس اس کے بنا دیجو مری آنکھ بھی نقاش
گر کھینچے ہے تو نقش رخ اس حور لقا کا

کس طرح میں اب سر پہ بھلا خاک نہ ڈالوں
دیکھوں ہوں نشاں در پہ تری صد کف پا کا

کس بیکسی کی مرگ ہے راسخؔ کا بھی مرنا
نعش اس کی پہ کوئی نہ ہوا محو عزا کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse