مل گیا دل نکل گیا مطلب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مل گیا دل نکل گیا مطلب
by حسن بریلوی

مل گیا دل نکل گیا مطلب
آپ کو اب کسی سے کیا مطلب

حسن کا رعب ضبط کی گرمی
دل میں گھٹ گھٹ کے رہ گیا مطلب

نہ سہی عشق دکھ سہی ناصح
تجھ کو کیا کام تجھ کو کیا مطلب

مژدہ اے دل کہ نیم جاں ہوں میں
اب تو پورا ہوا ترا مطلب

اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
سچ ہے تم کو کسی سے کیا مطلب

آتش شوق اور بھڑکی ہے
منہ چھپانے کا کھل گیا مطلب

کچھ ہے مطلب تو دل سے مطلب ہے
مطلب دل سے ان کو کیا مطلب

ان کی باتیں ہیں کتنی پہلو دار
سب سمجھ لیں جدا جدا مطلب

اس کو گھر سے نکال کر خوش ہو
کیا حسنؔ تھا رقیب کا مطلب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse