مل گئے اپنے یار سے اب کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مل گئے اپنے یار سے اب کی
by میر حسن دہلوی

مل گئے اپنے یار سے اب کی
حظ اٹھایا بہار سے اب کی

لخت دل برگ دل کی طرز جھڑے
مژہ کی شاخسار سے اب کی

جس طرح آگے پھر گئے تھے کہیں
پھر نہ پھریو قرار سے اب کی

دیکھیں کیا کیا شگوفے پھولیں گے
اس دل داغدار سے اب کی

گر وہ آوے تو اتنا کہیو حسنؔ
مر گیا انتظار سے اب کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse