مل جائیں ازدحام میں ہم ہی یہ ہم سے دور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مل جائیں ازدحام میں ہم ہی یہ ہم سے دور
by سید یوسف علی خاں ناظم

مل جائیں ازدحام میں ہم ہی یہ ہم سے دور
اک گھر جدا بنائیں گے دیر و حرم سے دور

جتنے قدم زیادہ ہوں اتنا زیادہ اجر
گھر برہمن کا چاہیے بیت الصنم سے دور

شداد شکر کر کہ گئی در پہ تیری جان
جب تھا مقام شکوہ کہ مرتا ارم سے دور

پیرو ہوں گرچہ پاس ادب بھی ضرور ہے
رکھتا ہوں پاؤں خضر کے نقش قدم سے دور

چاہوں کہ حال وحشت دل کچھ رقم کروں
بھاگیں حروف وقت نگارش قلم سے دور

دیکھا ہے دام و دانہ کا دستور یاں نیا
خال ذقن ہی طرۂ پر پیچ و خم سے دور

دم بھر میں جا پہنچتے ہیں یاں کے مقیم واں
یہ مرحلہ نہیں ہے سواد‌ عدم سے دور

ہیں کھیل سب منافیٔ شوکت کہ اہل جاہ
رہ جاتے ہیں شکار میں خیل و حشم سے دور

ناظمؔ یہ تار بجلی کے نکلے ہے راہ خوب
باتیں کریں گے یار ہو کتنا ہی ہم سے دور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse