مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
by شاہ نصیر

مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
کیا جانے تم کہاں ہو کوئی دم کو ہم کہاں

کوچے سے تیرے اٹھ کے بھلا جائیں ہم کہاں
جز نقش پا ہے رہبر ملک عدم کہاں

دامن کشاں پھرے ہے مری خاک سے ہنوز
رکھتا ہے آہ وہ سر مرقد قدم کہاں

اس کے صف مژہ سے لڑاوے نشان آہ
اے فوج اشک جائے ہے لے کر علم کہاں

میرا ہی لخت دل ہے کہ ہمراہ اشک ہے
ورنہ رہے ہے آب سے آتش بہم کہاں

سب سے جدا ترے خط ریحاں کی شان ہے
اس خط کو لکھ سکے ہے زمرد رقم کہاں

منہ دیکھوں جو کرے ید قدرت سے ہم سری
ایسی صفائی ہاتھ کی اور یہ قلم کہاں

کیوں کر نہ سقف چرخ کہن تھم رہے نصیرؔ
میرے ستون آہ چھٹ اس میں ہے تھم کہاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse